شی میل
ترے لیے بھی تڑپتا ہے کوئی شام و سحر۔
کہ ایک پھول مہکتا ہے کوئی شام و سحر۔
تجھے خبرہی نہیں تو بھی ایک دھڑکن ہے۔
ترے لیے بھی دھڑکتا ہے کوئی شام وسحر۔
ترے وجود میں رہتی ہے اک کلی جاناں۔
کلی کے بیچ بلکتا ہے کوئی شام و سحر۔
تجھے ضمیر بدلنے کی کیا ضرورت ہے ؟
یہاں لکیر بدلتا ہے کوئی شام و سحر۔
خودی جگا کے مرے پاس ایک بار تو لا۔
بلنداس کوبھی کرتاہے کوئی شام و سحر۔
خدا کرے کہ مری بات رک نہ جائے کہیں۔
ہوا میں شعلہ لپکتا ہے کوئی شام و سحر۔
کہیں سے آ کہ یہ الفاظ اب سنبھلتے نہیں۔
مدام بولتا رہتا ہے کوئی شام و سحر۔
تو اپنے ہاتھ سے لکھ لے کہیں مرے جاذب۔
مرے قلم میں لرزتا ہے کوئی شام و سحر۔
(جاذب کمالوی)
SHEmale? She is Female, dear Poet.5 Stars full Score!