غزل
وحشت لئے پھرے ہے یہاں سے وہاں مجھے
حیرت سے اب تو دیکھتا ہے آسماں مجھے
میرا وجود شہر میں کاغذ کی ناؤ ہے
لے جائے گا کہیں تو یہ آبِ رواں مجھے
ہر چند اس جہاں میں مکاں کی تلاش ہے
لیکن رکھے گا کوکھ میں یہ خاکداں مجھے
کانوں میں آنے لگتی ہے مانوس سی صدا
پریوں کی جب سنائے کوئی داستاں مجھے
تحسین میرے شعر کو ہرگز نہیں نصیب
حیرت سے دیکھتے بھی ہیں اہلِ زباں مجھے
رشید سندیلوی
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem