غزل
سیم وزر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں
کسی شہزادی سی تقدیر نہیں چاہتی میں
مکتبِ عشق سے وابستہ ہوں کافی ہے مجھے
داد ِ غالب ، سند ِ میر نہیں چاہتی میں
فیض یابی تری الفت ہی سےملتی ہےمجھے
کب ترے عشق کی تاثیر نہیں چاہتی میں
ایک دو روز کا مہمان ہے اس شہر میں وہ
اور اس عشق کی تشہیر نہیں چاہتی میں
مجھ کو اتنی بھی نہ سکھلا تُو نشانہ بازی
تجھ پہ چل جاۓ مرا تیر نہیں چاہتی میں
اب تو آتا نہیں عنبر وہ کبھی سپنے میں
اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتی میں
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
پاکستان
—
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem