باندیاں
———
میرے مالک
کیا ہم باندیاں ہیں
جو آگ میں جلا کر مار دی جائیں
ہم وہ جوانیاں ہیں
محبت کے نام پر جو مسل دی جائیں
ہم وہ کلیاں ہیں
ہوس کا نشانہ بنا کر
جن کے پر نوچ لئے جائیں
ہم وہ تتلیاں ہیں
جو مصلحت کے نام پر
قربان کر دی جائیں ہم وہ بیٹیاں ہیں
جو وراثت سے محروم کر دی جائیں ہم وہ بہنیں ہیں
میرے مالک
کیوں ہم باندیاں ہیں
باب اختیار سے اذن سفر ہم کو بھی دے
پرواز کے لیے وسیع گگن ہم کو بھی دے
باند ھ ہمارے قدموں سے کو ئی منزل
اتباع کرنے والوں کا کوئی لشکر ہم کو بھی دے
مرے مالک
آخر کب تک
ہم باندیاں ہی
—-
نادیہ عنبر لودھی
اسلام آباد
پاکستان
——-
This poem has not been translated into any other language yet.
I would like to translate this poem